ایک بوڑھے نے اپنے تینوں بیٹوں کو روبرو بُلا کر اپنی تمام نقد رقم اور جائیداد کا حصہ مساوی طور پر تقسیم کر دیا اور ایک بیش قیمت جوہر ان کو دِکھلا کر کہا کہ اس کا مستحق وہ بیٹا ہوگا جو میری زندگی کے بقیہ ایام میں سب سے زیادہ اچھا کوئی نیکی کا کام کرے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک بیٹے نے آ کر کہا کہ اب وہ جوہر مجھے دے دیجیے کیونکہ آج میں ایسا نیکی کا کام کر کے آیا ہوں جس کے بعد اب اس انعام کا حقدار ہوں جس کا آپ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ بوڑھے باپ نے پوچھا کہ اپنی کس نیکی کے عوض تم یہ جوہرحاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہو؟ بیٹے نے کہا کہ ایک شخص نے کچھ عرصہ پہلے اشرفیاں اور اپنا قیمتی سامان میرے پاس بطورِ امانت رکھوایا جس کے متعلق نہ کوئی نوشت تھی اور نہ ہی کوئی گواہ شاہد تھا۔ اس شخص کے واپس آنے اور امانت طلب کرنے پر میں نے اسے اس کی امانت واپس کر دی حالانکہ اگر میں انکار کر دیتا تو وہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھاکیونکہ اس کے پاس کوئی گواہ یا ثبوت موجود نہ تھا‘لہٰذا اس سے بڑھ کر نیکی کا اور کیا کام ہو سکتا ہے۔ بوڑھے نے ہنس کر کہا کہ نیکی کا یہ ایک معمولی کام ہے جس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی‘ اگر میرے دوسرے دونوں بیٹوں نے میری زندگی میں اس سے زیادہ اچھا کام نہ کیا تو مرتے وقت یہ قیمتی جوہر تمہیں دے دیا جائے گا۔
ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ اس بوڑھے شخص کا دوسرا بیٹا باپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جوہر طلب کرنے لگا۔ بوڑھے نے پوچھا کس نیکی کے عوض؟ بیٹے نے جواب دیا کہ دریا نہایت طغیانی پر تھا اتفاقاً ایک لڑکا پل سے دریا میں گر گیا اس کے ماں باپ اور دیگر سینکڑوں اشخاص میں سے کسی کو اُسے نکالنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بڑی مشکل کے ساتھ اس لڑکے کو زندہ نکالاجس سے اس لڑکے کی جان بچ گئی‘ اس سے بڑھ کر نیکی اور قربانی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ بوڑھے نے ہنس کر کہا کہ ہمدردی اور انسانیت کا یہ عمل ایک معمولی فعل ہے اور اگر تیسرے بیٹے نے اس سے بہتر کوئی کارنامہ نیکی کا نہ دِکھلایا تو یہ جوہر تم کو دے دیا جائے گا۔
تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ تیسرا بیٹا باپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے بخلاف پہلے دونوں بھائیوں کے جوہر طلب نہ کیا البتہ اپنی کارگزاری یوں بیان کی کہ میرا جانی دشمن شراب سے مخمور پہاڑ کے ایک غار کے منہ پر اس طریقے سے بے ہوش پڑا تھا کہ اِدھر ابدھر ذرا سی حرکت کرنے پر وہ اس قدر بلندی سے گر کر ضرور مر جاتا۔ باوجود اپنا جانی دشمن جاننے کہ میں نے اسے وہاں سے اُٹھایا اور اپنے منہ کو میں نے کپڑے سے ڈھانپ لیا تاکہ وہ جاگ جائے تو میری صورت پہچان کر شرمندہ نہ ہو ۔ رات کی تاریکی میں اپنی پشت پر اُٹھا کر اس کو اس کے گھر پر بحفاظت چھوڑ آیا۔ بوڑھے نے بِلاتامل وہ جوہر اس لڑکے کے حوالے کیا اور کہا کہ درحقیقت تیری نیکی قابل صد ہزار ستائش اور حقیقی نیکی ہے اور اس جوہر کا تجھ سے زیادہ مستحق کوئی نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ یہ کہ نیکی وہی ہے جو دشمنوں اور بُرے لوگوں کے ساتھ کی جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں